11 اکتوبر 2025 - 09:16
نیتن یاہو جنگ بندی پر کیوں مجبور ہوا؟ کیا جنگی مجرم جیل جائے گا؟

پولیٹیکو میگزین کی رپورٹ کے مطابق، شرم الشیخ معاہدے کے اعلان سے پہلے ہی، ـ جس میں مصر، قطر اور ترکیہ کی ثالثی شامل تھی، ـ اسرائیل نے گستاخانہ دعوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ "دنیا معاف کر دے گی اور بھول جائے گی"؛ تاہم، مغربی رپورٹس نے بار بار ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل کی تنہائی اب محض ایک مفروضہ نہیں ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || الجزیرہ نیٹ نے محمود سلطان کے تجزیاتی مضمون شائع کرتے ہوئے ان وجوہات کی وضاحت کی ہے جن کی بنا پر صہیونی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو غزہ کی جنگ ختم کرنے پر رضامند ہونے پر مجبور ہؤا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ نیتن یاہو نے خود کو اقوام متحدہ میں دنیا کے سامنے تنہا اور قابلِ نفرت پایا۔

نیتن یاہو بین الاقوامی کریمینل کورٹ کے جاری کردہ گرفتاری وارنٹ کے ڈر سے یورپ کی فضائی حدود سے گزرنے سے گریز کرتا رہا، اور جب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے گیا تو موجودہ وفود ہال چھوڑ کر چلے گئے اور نیتن یاہو نے خالی حال سے خطاب کیا!

یورپی شخصیات نے صراحتاً صہیونی ریاست پر نسل کشی کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا، اور یہاں تک کہ تل ابیب کی امریکی ڈیموکریٹک حامیوں ـ جیسے سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان ـ نے بھی اس ریاست کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی پر زور دیا۔

اس سال اگست میں، 28 مغربی ممالک نے تل ابیب سے غزہ میں اپنی درندگی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مختلف اداروں اور ممالک نے اسرائیلی حکومت کے خلاف ثقافتی، تعلیمی اور کھیلوں کی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی؛ ان پابندیوں کے نتیجے میں اسرائیلی حکومت کے ایک یونیورسٹی پروفیسر، نمرود گورن نے کہا: "غزہ کی وجہ سے، زیادہ تر اسرائیلی محسوس کرتے ہیں کہ پوری دنیا ان کے خلاف ہے۔" اور صہیونی ریاست کے سابق وزیر اعظم، ایہود اولمرت نے اعتراف کیا کہ "ہم ایک قابلِ نفرت ریاست بن گئے ہیں۔"

نیتن یاہو کا ایک اور غلط اندازہ یہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا ڈونلڈ ٹرمپ ہر صورت میں اس کی حمایت کریں گے اور اسے کچھ کرنے پر مجبور نہیں کریں گے؛ لیکن کچھ عرصے بعد اس نے خود کو ٹرمپ کے انتہائی سخت دباؤ کے سامنے پایا، جو 1956 میں امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور کے اس وقت کے صہیونی ریاست کے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین کو دئے گئے انتباہ جیسا تھا، جب آئزن ہاور نے کہا تھا کہ "وہ تل ابیب کے خلاف سیاسی اور معاشی پابندیاں عائد کریں گے۔"

صہیونی ریاست کی تنہائی کا خوف اس قدر بڑھ گیا کہ نیتن یاہو نے خبردار کیا کہ تل ابیب کو اپنی تنہائی کا مقابلہ کرنے کے لئے قدیم زمانے کے اسپارٹز کی طرح معاشی طور پر خود کفیل بننا پڑے گا۔

پیو کے تازہ ترین سروے سے پتہ چلا ہے کہ 58 فیصد اسرائیلی باشندے سمجھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست نے اپنی عزت کھو دی ہے۔

سروے بتاتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں رہائش پذیر زیادہ تر آبادکار جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں کیونکہ جنگ نے اس ریاست کی ساکھ تباہ کر دی ہے اور اسے تنہا کر دیا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی اسرائیلی ریاست خود کو تنہا پا رہی ہے، کیونکہ ٹرمپ نے تل ابیب کو بتائے بغیر حماس سے بات چیت کی، شام سے پابندیاں اٹھا لیں اور ایران سے بات چیت کی خواہش ظاہر کی۔

قطر میں حماس رہنماؤں کے قتل کی اسرائیلی ریاست کی کوششوں پر ٹرمپ کی ٹیم نے اس ریاست پر واشنگٹن اور اس کے نان-نیٹو اتحادیوں کے درمیان مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کا الزام لگایا؛ ٹرمپ نے کہا کہ وہ نیتن یاہو سے مایوس ہیں اور انھوں نے خبردار کیا کہ جنگ کو بس ختم ہونا چاہئے۔

نیتن یاہو کے غزہ کی جنگ بندی پر رضامند ہونے کی ایک بڑی وجہ اسرائیلی ریاست کے خلاف بڑھتا غصہ اور یورپ میں اسرائیل مخالف عظیم اور مسلسل مظاہرے تھے، جو یورپ اور اسرائیلی ریاست کے تاریخی تعلق کے لئے خطرناک چیلنج تھے، یہاں تک کہ تل ابیب نے خود کو شکست و ریخت اور زوال کے دہانے پر پایا۔

آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، پولینڈ، جنوبی کوریا اور امریکہ جیسے کچھ ممالک میں نوجوان بوڑھوں کے مقابلے میں اسرائیل کے بارے میں زیادہ منفی رائے رکھتے ہیں۔

قطر میں حماس کے اعلیٰ عہدیداروں کے قتل کی ناکام اسرائیلی کوشش ـ جس نے خطے میں غم و غصہ پیدا کیا، بشمول امریکہ کے بعض اہم اتحادیوں کے ـ کے بعد معاہدے کی کوششیں تیز ہو گئیں،

لگتا ہے کہ ٹرمپ ٹیم نے اس موقع کو نیتن یاہو پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کیا اور اس پر الزام لگایا کہ اس نے واشنگٹن کو اس کے سب سے اہم غیر نیٹو اتحادی کے ساتھ الجھا دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قریبی حلقوں میں یہ خیال عام ہے کہ دوحہ پر اسرائیل کے غدارانہ فضائی حملے کے بعد ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ جنگ کو جزوی معاہدے کے ذریعے نہیں بلکہ ایک جامع معاہدے کے ذریعے ختم کیا جانا چاہئے۔

شرم الشیخ معاہدے سے چار دن پہلے، پورے یورپ میں لاکھوں افراد نے اسرائیل کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا، ایک ایسا واقعہ جسے صہیونی میڈیا نے یورپ اور صہیونی ریاست کے درمیان تاریخی تعلقات میں سب سے خطرناک موڑ قرار دیا۔

اسرائیل سے نفرت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ پہلی بار تمام اتحادی اسے چھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں، اور اسرائیل خود کو ٹوٹ پھوٹ اور دنیا کے نقشے سے غائب ہونے کے راستے پر دیکھ رہا ہے، اور صہیونی آبادکاروں نے مقبوضہ فلسطین سے الٹی نقل مکانی کے قوی امکان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دوسری طرف اگرچہ غزہ کے لاکھوں فلسطینیوں کے قتل، بے گھر ہونے اور بھوک کے سانحہ کو ختم کرنے کے لئے ایک معاہدے کی ضرورت ہے، پوری مغربی دنیا ـ بشمول امریکہ اور خود اسرائیل ـ کو ایسے معاہدے کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو بچا سکیں اور اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس حاصل کر سکیں۔ مغرب، دنیا کے مظلوموں کی نظر میں، محض ایک جغرافیائی خطہ بن کر رہ گیا ہے جو خونخواری، درندگی اور منظم نسل کشی کا بندوبست کررہا ہے۔

غیر جانبدار تجزیہ کار بھی اس یقین پر پہنچ چکے ہیں کہ مغرب نے اپنے "ڈارون ازم" کو بے شرمی سے عیاں کر دیا ہے، جو صرف سفید فام نسل کی برتری، امریکی سپرمین اور اسرائیلی ریمبو کو تسلیم کرتا ہے؛ ایک ایسا مغرب جو اپنی سرحدوں سے باہر کی دنیا کو اپنے لئے بوجھ سمجھتا ہے جسے ختم کر دینا چاہئے، چاہے اسے بھوکا رکھ کر، اسے بے گھر کر کے، اس کی زمینیں قبضے میں لے کر، اور اسے اس کے غریب اور تباہ شہروں کے ملبے تلے زندہ دفن کر کے ہی کیوں نہ ہو۔

ایسے حالات میں پہلی بار پوری دنیا جنگ بندی کی ضرورت پر متفق ہو گئی اور نیتن یاہو کے پاس عالمی عوامی رائے کے سامنے جھکنے اور اپنی تکبر اور خود پسندی ترک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، اپنے کسی بھی مقصد میں کامیابی کے بغیر۔

اب وہ اپنی تقدیر اور سیاسی مستقبل کا انتظار کرنے پر مجبور ہے جس کا مطلب شاید اقتدار چھوڑنا ہو، وہ اقتدار جسے برقرار رکھنے کے لئے اس نے ایک پورے علاقے کو مسمار کر ڈالا، سینکڑوں ہزاروں عورتوں، بچوں اور بڑوں کو قتل اور زخمی کیا۔ اب شاید وہ اپنی باقی زندگی ایک قیدی کے طور پر اسرائیل کی جیلوں کے کسی سیل میں گذارنے پر مجبور ہوجائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

 

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha